غزل۔فضائے

Share
فضائے ہر دوعالم ہنس پڑے جب یار ہنستا ہے
وگرنہ خشک ہونٹوں میں چبھا ہر خار ہنستا ہے
مری سرگوشیوں میں کچھ عجب آواز رہتی ہے
کہ جیسے غار میں بیٹھا کوئی خونخوار ہنستا ہے
یہ کس منحوس نے میری حسیں وادی کو دیکھا تھا
کہ اب سرخی سڑک پر دیکھ لالہ زار ہنستا ہے
میں جب دیکھوں حسیں ہونٹوں پہ پھیلی مسکراہٹ کو
مرے سینے میں بیٹھا صاحبِ کردار ہنستا ہے
کسی بے بس کی عرضی تلملا اٹھتی ہے چپ کے سے
بہت مایوس کن لہجے میں جب انکار ہنستا ہے
مروّت، درد، عفّت، عشق و الفت مل کے روتے ہیں
کہ جب مظلوم عورت دیکھ کے غمخوار ہنستا ہے
کسی جھونپڑ میں خالی دیگچی جل جل کے روتی ہے
کسی کاخِ سما اندوز میں انبار ہنستا ہے
میں جب بھی آئینے میں دیکھتا ہوں اپنے چہرے کو
بہت حیران ہو کے آئینہ ہر بار ہنستا ہے
ہمیشہ ہنس کے ملتا ہوں میں جب لوگوں سے محفل میں
مرے اندر کوئی بیٹھا ہوا بیزار ہنستا ہے