غزل-لٹے-چمن

غزل-لٹے-چمن Cover Image

لٹے چمن میں خزاں کا موسم کوئی تمنا جگا رہا ہے 

بحر وفا کی مچل رہی ہے فلک جو نغمے سنا رہا ہے

 

شجر پہ بیٹھا کوئی پرندہ جو بانسری سی بجا رہا ہے

ہمارے زخم جگر کو جیسے یہ اپنی دھن سے نچا رہا ہے

 

کوئی چناروں کے سرخ پتوں کو ہر طرف سے بچھا رہا ہے

کہ گھر کو جانے  کے راستے کا ہر ایک نقشہ مٹا رہا ہے

 

کسی کی باتوں کی خیر یا رب عجیب جادو بنا رہی ہے

کہ ابن انشا کے شعر جیسے چرا کے ہم کو سنا رہا ہے

 

کسی کی آنکھوں کی خیر یا رب عجیب چکر چلا رہی ہیں 

جو دیکھتا ہے کسی کی آنکھیں وہ جشن مستی منا رہا ہے 

 

میں ان سے مل کر بدل گیا ہوں مری تمنا بدل گئی ہے

کوئی بھی حسرت نہیں بچی ہے جنون ہستی مٹا رہا ہے

 

ابھی بھی پختہ نہیں ہوا ہوں وہ دن کہاں جب پہاڑ سا تھا 

میں شب کے طوفاں میں لٹ گیا تھا کوئی دوبارہ بنا رہا ہے

 

کہ اب ہے آتش حرام مجھ پر, جلاؤ پر میں نہیں جلوں گا

جو سوچتا ہے جلا سکے گا وہ خود کو خود ہی جلا رہا ہے

 

یہ جس کو پی کر مگن ہوا ہوں, یہ جس میں کوثر ملا ہوا ہے

سمجھ گیا یہ شراب مجھ کو نجف کا ساقی پلا رہا ہے

 

غزل میں مقطع نہیں لکھا تھا طلب کیا پھر کسی نے ذیشاں 

وہ جو عداوت کی آندھیوں میں مجھے محبت سکھا رہا ہے