غزل۔درد حد سے گزر گیا ہوگا

غزل۔درد حد سے گزر گیا ہوگا Cover Image

درد حد سے گزر گیا ہوگا،

 ØªÛŒØ±Ø§ عاشق تو مر گیا ہوگا۔

 

چھان کر خاک تیرے کُوچے کی،

  دیر سے اپنے گھر گیا ہوگا۔

 

  تیری آواز اُسکے اندر تھی،

   Ø®Ø§Ù…Ø´ÛŒ سے وہ ڈر گیا ہوگا۔

 

   Ø¨ÙˆØ¬Ú¾ آہوں کا اور نالوں کا،

    اُسکے دل سے اُتر گیا ہوگا۔

 

  چُوم کر ہار تیرے اشکوں کا،

    قبر میں رقص کر گیا ہوگا۔

 

   ØªÛŒØ±ÛŒ آہٹ سے کام لیتے ہی،

 Ø¨Ø§Øº پھولوں سے بھر گیا ہوگا۔

 

   Ø¨Û’خودی میں قرار پاتا تھا،

   Ø®ÛŒØ±! اب تو سدھر گیا ہوگا۔

 

  نام اب بھی مرادؔ زندہ ہے،

عشق میں دے کے سر گیا ہوگا۔